۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
CitizenshipAmmendmentBill2019

حوزہ/ایوان زیریں (لوک سبھا) سے منظوری کے بعد انڈیا میں شہریت (ترمیمی) بل 2019 کو اب ایوان بالا (راجیہ سبھا) سے بھی منظور کر لیا گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| بدھ کو انڈین وزیر داخلہ امت شاہ نے شہریت (ترمیمی) بل 2019 راجیہ سبھا میں پیش کیا تھا جس کے بعد اس پر طویل بحث کی گئی جہاں حکومت اور اپوزیشن کے رہنماؤں نے اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔

اس بل میں بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان کی چھ اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، پارسی، عیسائی اور سکھ) سے تعلق رکھنے والے افراد کو انڈین شہریت دینے کی تجویز ہے۔

انڈیا کے ایوان بالا میں اس بل کے حق میں 125 ووٹ آئے جبکہ اس کے خلاف 105 ووٹ ڈالے گئے۔

انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کے مطابق بل سے ان لوگوں کی مدد کی جائے گی جنھیں مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کا سامنا رہا جبکہ ناقدین کہتے ہیں کہ اس کی منظوری سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو گا۔

نو دسمبر کو شہریت (ترمیمی) بل 2019 لوک سبھا سے منظور کیا گیا تھا۔

’اس سے دو قومی نظریہ حقیقت بن جائے گا‘

بل پر راجیہ سبھا میں بحث کے دوران کانگریس کے سینئر رہنما کپل سبل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس بل کے ذریعے آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔

کپل سبل نے کہا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے تاریخ کہاں سے پڑھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دو قومی نظریہ کانگریس کا نہیں تھا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بل کے منظور ہونے سے دو قومی نظریہ حقیقت بن جائے گا۔

سبل نے الزام لگایا کہ 2014 سے بی جے پی ایک خاص مقصد پر کام کر رہی ہے۔ ’کبھی لو جہاد ، کبھی این آر سی اور کبھی شہریت ترمیمی بل۔‘

کپل سبل نے کہا ہے کہ وزیر داخلہ نے کہا کہ مسلمانوں کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’ہندوستان میں کوئی مسلمان آپ سے نہیں ڈرتا۔ نہ ہی مجھے ڈر ہے، اور نہ ہی اس ملک کے شہری خوفزدہ ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم خوفزدہ ہیں تو اس آئین سے خوفزدہ ہیں، جس کی آپ دھجیاں اڑا رہے ہو۔‘

اس سے قبل سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے شہری ترمیمی بل کے بارے میں حکومت سے سوالات پوچھے اور کہا کہ حکومت کی کسی ذمہ دار شخص کو ان کو جواب دینا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ یہ بل پارلیمان کے منھ پر ایک طمانچہ ہے۔ ’پارلیمان سے غیر آئینی اقدامات کرنے کے لیے کہا جارہا ہے۔‘

چدمبرم نے پوچھا ’صرف پاکستان ، بنگلہ دیش ، افغانستان کی ہی کیوں بات کی جا رہی ہے۔ اس میں سری لنکا کے ہندو ، بھوٹان کے عیسائی کیوں شامل نہیں ہیں، کیوں مذہب کو بل کی بنیاد بنایا گیا؟‘

’صرف چھ مذاہب کو کیسے شامل کیا گیا۔ اسلام کو کیوں شامل نہیں کیا گیا، عیسائی اور یہودی مذہب کو کیوں شامل کیا گیا۔‘

سابق وزیر داخلہ نے پوچھا کہ کیا یہ آرٹیکل 14 کے تین بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

’مسلمانوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں‘

بل پیش کرتے ہوئے انڈین وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ ’بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے منشور میں اس کا اعلان کیا تھا۔ ہم نے اسے ملک کے عوام کے سامنے رکھا اور ہمیں عوامی حمایت اور مینڈیٹ ملا۔ ہم نے پڑوسی ممالک میں تشدد کا شکار مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے شہریت کا ترمیمی بل لانے کا عہد کیا تھا۔‘

اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ وہ شمال مشرقی ریاستوں کے لوگوں کے شکوک و شبہات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور وہاں کے لوگوں کی زبان، سماجی اور ثقافتی پہچان کی حفاظت کے بھی پابند ہیں۔

انھوں نے مزید کہا ’پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان وہ تین ممالک ہیں جن کی سرحدیں انڈیا سے ملتی ہیں اور یہاں کے جو ہندو، جین، بودھ، سکھ، عیسائی اور پارسی شہری انڈیا آئے ہیں، کسی بھی وقت آئے ان کو شہریت دیے جانے کا اس بل میں انتظام ہے۔‘

امت شاہ نے کہا کہ ملک کے مسلمانوں کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'ہندوستانی مسلمان محفوظ ہیں اور ہمیشہ محفوظ رہیں گے۔‘

راجیہ سبھا میں اس بل کے پیش کیے جانے سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد کہا کہ شہریت ترمیمی بل سے لوگوں کو جو راحت ملی ہے ان کی خوشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔

انھوں نے کہا کہ کئی معاملات پر اپوزیشن پاکستان کی زبان بول رہی ہے۔ ’جیسا پاکستان بولتا ہے ویسا ہی اپوزیشن بولتی ہے۔‘

مودی نے کہا: ’چھ ماہ کا وقت تاریخی رہا ہے، اس دوران ایسا ہوا ہے جو برسوں میں نہیں ہوا۔ لیکن پاکستان جس طرح کی زبان شہریت کے بل کے بارے میں بول رہا ہے وہی بات یہاں کی کچھ جماعتیں بول رہی ہیں۔ اسے عوام تک لے جائيں۔‘

راجیہ سبھا میں اس بل پر بحث کے لیے چھ گھنٹے کا وقت مختص کیا گیا ہے۔ یہ بل جو لوک سبھا میں 311 ممبران کی حمایت سے آسانی سے منظور کیا گیا ہے ایوان بالا میں آسان نہیں ہو گا کیونکہ یہاں حکمراں جماعت کی تعداد کم ہے۔

حزب اختلاف کی جانب سے پہلے کانگریس کے آنند شرما نے بل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

انھوں نے کہا: ’آپ نے کہا یہ ایک تاریخی بل ہے لیکن تاریخ اس کو کس طرح دیکھے گی، یہ وقت بتائے گا۔ لیکن ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ آپ کو اس کے بارے میں اتنی جلد بازی کیوں ہے۔ اس پر نظر ثانی کریں، اسے پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے رکھیں۔ لیکن حکومت اس کے متعلق اپنی ضد پر قائم ہے۔۔۔ مخالفت کی وجہ سیاسی نہیں بلکہ آئینی اور اخلاقی ہے۔‘

انھوں نے کہا: ’تاریخ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا میں ایسی بہت ساری کوششیں ہو چکی ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکیں۔ یہ جمہوریت کی حقیقت ہے۔ ایک نظریہ ان لوگوں کا بھی تھا جو گاندھی اور کانگریس کے خلاف تھے۔ اس میں مسلم لیگ تھی، جناح اس کے قائد تھے۔ ہندو مہاسبھا تھی، ساورکر اس کے رہنما تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’تقسیم کا دو قومی نظریہ کانگریس نہیں لائی۔ 1937 میں احمد آباد میں ہندو مہاسبھا نے اسے منظور کیا تھا جس کی صدارت ساورکر نے کی تھی۔ 1938 میں مسلم لیگ کا اجلاس ہوا جس میں تقسیم ہند کی قرارداد پیش کی گئی۔ مظہرالحق نے تجویز پیش کی۔ جو بعد میں پاکستان کے وزیر اعظم بھی بنے۔‘

اس دوران ان کا کہنا تھا: ’کسی بھی پارٹی کا منشور ملک کے آئین سے بڑا نہیں ہے۔ اس پر سیاست نہ کریں۔‘

انھوں نے ترمیمی بل کے ساتھ این آر سی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’حراستی مراکز پر میں نے بی بی سی کی ایک دستاویزی فلم دیکھی ہے۔ وہاں جا کر دیکھیں کہ ہم نے 21 ویں صدی میں لوگوں کو کس طرح رکھا ہے۔ آپ پورے ملک کے این آر سی کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ کیا پورے ہندوستان میں حراستی مراکز تعمیر کیے جائیں گے؟‘

انڈین وزیر داخلہ امت شاہ کی مہاجر یا درانداز کی تشریح کتنی درست ہے؟

شہریت (ترمیمی) بل 2019 کو نو دسمبر کو لوک سبھا میں منظور کیا گیا۔ اس بل پر بحث کے دوران، 48 اراکین نے اس بل کے حق اور مخالفت میں تقاریر کیں، جس کے بعد رات تقریباً دس بجے وزیر داخلہ امت شاہ نے تمام سوالات کے جواب دینا شروع کر دیے۔ انھوں نے ایک گھنٹہ سے زائد تقریر کی۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ ’آج جہنم کی زندگی بسر کرنے والے لاکھوں مہاجرین کی پریشانیوں کے خاتمے کا دن ہے۔‘

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی سنہ 2016 کی رپورٹ کے مطابق انڈیا میں دو لاکھ سے زیادہ مہاجرین ہیں۔

ان میں تبت، سری لنکا، افغانستان، میانمار، پاکستان اور صومالیہ سے آئے مہاجرین شامل ہیں۔ سنہ 2015 میں 39 شامی مہاجرین بھی انڈیا آئے تھے۔

افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش مسلم ممالک ہیں

وزیر داخلہ امت شاہ نے لوک سبھا میں کہا کہ ’افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے آئین میں ریاست کے مذہب کو اسلام سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہاں اقلیتوں کو انصاف ملنے کی امید کم ہو جاتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ سنہ 1971 میں آئین میں بنگلہ دیش ایک سیکولر قوم سمجھا جاتا تھا لیکن اس کے بعد 1977 میں ریاست کے مذہب کو اسلام میں تبدیل کر دیا گیا۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ساؤتھ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر سنجے بھاردواج کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تینوں مسلمان قومیں ہیں لیکن بنگلہ دیش مسلمان ہونے کے باوجود خود کو سیکولر مانتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان تینوں ممالک میں سب سے نرم اسلامی ملک‘ بنگلہ دیش ہے ، لیکن اس ملک کے آئین میں 1977 میں لفظ سیکولر کو ختم کر کے اسلام کو شامل کیا گیا تھا۔

سنہ 2011 میں عدالت نے حکم دیا تھا کہ 1971 کے آئین کی روح کو محفوظ رکھا جانا چاہئے جس کے بعد سیکولرازم کو دوبارہ اس میں شامل کیا گیا، لیکن وہ خود کو ایک اسلامی ملک سمجھتے تھے۔

انڈین وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ 1950 میں دہلی میں نہرو لیاقت معاہدہ ہوا تھا اور اس معاہدے کے تحت فیصلہ کیا گیا تھا کہ انڈیا اور پاکستان اپنی اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کریں گے۔ پاکستان نے انڈیا کو یقین دلایا تھا کہ وہ ہندوؤں، سکھوں، بودھوں، جینوں، مسیحی اور زرتشتیوں کا خیال رکھے گا۔

اس کے بعد انھوں نے کہا کہ سنہ 1947 میں پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد 23 فیصد تھی اور 2011 میں یہ کم ہو کر تین اعشاریہ سات فیصد رہ گئی تھی۔

امت شاہ نے کہا کہ سنہ 1947 میں بنگلہ دیش میں اقلیتوں کی تعداد 22 فیصد تھی اور 2011 میں یہ کم ہو کر 7.8 فیصد ہو گئی جبکہ بنگلہ دیش 1971 میں تشکیل پایا تھا اور یہ 1947 اور 1971 کے درمیان مشرقی پاکستان تھا۔

پروفیسر سنجے بھاردواج کا کہنا ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے شاید یہ اعداد وشمار جلد بازی میں یا مجموعی طور پر پیش کیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 1947 سے 1971 کے پورے دور کے دوران مشرقی پاکستان میں صرف 15 فیصد اقلیتی آبادی تھی، بنگلہ دیش بننے کے بعد یہ تعداد کم ہوتی رہی اور 1991 میں صرف 10 فیصد اقلیت وہاں رہی جبکہ 2011 میں وہاں صرف 8 فیصد اقلیتیں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے اب ایک فیصد تک رہ گئی ہے۔

پروفیسر بھاردواج کہتے ہیں کہ ’پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش میں اقلیتی برادری کے لیے ترقی کا کوئی مسئلہ نہیں رہا کیونکہ وہ برطانوی دور سے ہی وہاں کے جاگیردار اور کاروباری برادری کا حصہ رہے ہیں۔ تقسیم کے بعد بھی ان کی معاشی حالت میں کمی واقع نہیں ہوئی لیکن ان کے ساتھ سیاست، ملازمت اور سلامتی میں یقینا ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔‘

وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ انڈیا میں 1951 میں 84 فیصد ہندو تھے اور 2011 میں وہ کم ہو کر 79 فیصد ہو گئے تھے، جبکہ باقی ممالک میں وہاں کی اکثریت کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے انڈیا میں مسلمانوں کی تعداد بھی بتائی۔ امت شاہ نے کہا کہ 1951 میں انڈیا میں مسلمانوں کی تعداد 9.8 فیصد تھی اور آج مسلمانوں کی تعداد 14.23 فیصد ہے۔

مہاجر یا درانداز کون؟

وزیر داخلہ امت شاہ نے ایوان زیریں میں بحث کے دوران کئی بار یہی بات دہرائی۔ انھوں نے کہا کہ جو اپنے ملک میں ظلم و ستم کا شکار رہا ہے اور اپنے مذہب اور خواتین کی عزت بچانے کے لیے انڈیا آیا ہے وہ مہاجر ہے اور جو غیر قانونی طور پر ملک میں بغیر اجازت داخل ہوا ہے وہ گھس بیٹھیا یا درانداز ہے۔

مسلمان اس بل میں کیوں شامل نہیں ہیں؟ وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی اس سوال کا جواب دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے مسلمان وہاں اقلیت نہیں ہیں، لہذا انھیں یہ سہولت فراہم نہیں کی جارہی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ میانمار سیکولر ملک ہے اور میانمار سے روہنگیا مسلمان انڈیا آتے ہیں اور ان روہنگیا مسلمانوں کو کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔

میانمار کے روہنگیا مسلمان اس ملک میں ایک اقلیت ہیں اور ان پر مظالم کی خبریں پوشیدہ نہیں ہیں۔ اس وقت 40 ہزار کے قریب روہنگیا مسلمانوں نے انڈیا میں پناہ لے رکھی ہے، تو پھر انھیں درانداز کیوں کہا جاتا ہے؟

اس سوال پر پروفیسر بھاردواج کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمان پناہ گزین ہیں کیونکہ انھوں نے اپنے ملک میں مظالم برداشت کیے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماہجرین کے مطابق مہاجر وہ شخص ہے جس کو ظلم و ستم، جنگ یا تشدد کی وجہ سے اپنے ملک سے فرار ہونا پڑا ہو اور مہاجروں کو خوف ہے کہ نسل، مذہب، سیاسی رائے یا کسی بھی معاشرتی گروہ کی وجہ سے ان پر ظلم کیا جائے گا۔

کیا شہریت بل ایک آئینی خلاف ورزی ہے؟

لوک سبھا میں بحث کے دوران، کانگریس کے رکن پارلیمنٹ منیش تیواری سمیت متعدد اراکین نے آرٹیکل 14 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس بل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ اس پر وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ یہ بل کسی بھی طرح سے غیر آئینی نہیں ہے اور اس سے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور یہ آئین کے نقطہ نظر سے درست ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’مساوات کا حق آرٹیکل 14 میں دیا گیا ہے اور اس قانون کو بنانے میں کوئی پابندی نہیں ہے، آرٹیکل 14 کہتا ہے کہ جس میں مساوات کا حق نہیں ہے اس پر پارلیمان میں قانون نہیں بنایا جا سکتا۔‘

نیلسار لا یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور قانون ماہر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ یہ بل آرٹیکل 14 کے معیار پر پورا نہیں اترتا ہے۔ امت شاہ کے بہت سے مذاہب کو شامل کرنے پر ان کا کہنا ہے کہ اس بل میں ایک مذہب چھوڑا گیا ہے جو مساوات کے حق کے خلاف ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آرٹیکل 14 کہتا ہے کہ وہ شہریوں کو یکساں سمجھے گا اور سب کے لیے یکساں قانون ہو گا۔ مساوی قانون کا مطلب یہ ہے کہ تمام قوانین سب کے لیے برابر ہیں۔‘

فیضان مصطفیٰ کا مزید کہنا ہے کہ آئین مذہب، ذات اور پیدائش کی جگہ کے مطابق قوانین بنانے کی اجازت نہیں دیتا ہے لیکن یہ بل اس قانون کو مذہب پر مبنی بنا دیتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ قانون آرٹیکل 14 کے میعار پر پورا نہیں اترتا ہے۔ اس میں تمام ہمسایہ ممالک شامل نہیں ہیں۔ میانمار، چین اور سری لنکا اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس قانون میں جو درجہ بندی کی گئی ہے وہ درست نہیں ہے۔‘

وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنی تقریر کے دوران دلائل دیے کہ آرٹیکل 14 کی بنیاد پر ایسے قوانین نہیں بن سکتے لہذا اقلیتی تعلیمی اداروں کے لیے یہ قانون کیسے بنایا گیا ہے؟

اس پر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ غلط فہمی میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 14 کے تحت اقلیتی تعلیمی ادارے بنائے گئے ہیں، یہ ادارے اصل میں آرٹیکل 30 کے تحت تشکیل دیے گئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’آرٹیکل 30 کے تحت انڈیا میں بسنے والی اقلیتوں نے تعلیمی ادارے بنائے ہیں۔ غیر ملکی اقلیتوں کو اس طرح کے حقوق نہیں دیے گئے ہیں۔ اگر اتر پردیش سے تعلق رکھنے والا ایک برہمن تمل ناڈو میں ہندی انسٹی ٹیوٹ کھولنا چاہتا ہے تو وہ اقلیت ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کھول سکتا ہے۔‘

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .